The Hurdles Involves In Economic Growth of Pakistan معاشی وجوحات
تمام معاشی مسائل کی جڑ یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی منصوبہ بندی انتہائی ناقص ہے ۔ بڑے بڑے نامور معیشت دان جو کہ منصوبہ بندی
کے لیے ماڈل ترقی یافتہ ممالک سے لے کر آتے ہیں ۔(Economic Planning)
ان کے اپنے ذہن میں ملکی حالات اور ضرورت کے مطابق کوئی منصوبہ نہیں ہوتا ۔ لہذا ملک 73سالوں میں گھوم گھام کر پھر وہاں کا وہاں ہے ۔ جہاں سے چلے تھے ۔ نہ تو کوئی سڑک مکمل ملتی ہے ۔ نہ کوئی سیور یج کا نظام چل رہا ہے ۔ نہ ہی کوئی نئی نہر کھودی گئی اور نہ ہی کوئی ریلوے کے تعاون سے مکمل ہوئے ۔(WORLD BANK) ٹریک بچھایاگیاہے ۔ سوائے چند ایک بڑے منصوبوں کے جو 1960اور 1970کی دہائیوں میں
جن میں پاکستان سٹیل ملز کراچی،تربیلا ڈیم،منگلا ڈیم،ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلاوغیرہ باقی ملک میں جو بھی تر قی ہوئی ۔ یہ وہ ترقی ہے جو عوام نے
(Natural Process)ایک قدرتی عمل
کے تحت حاصل کی ہے ۔ سیاسی اورآمرانہ حکومتوں نے معاشی ترقی کا راستہ روکا ہے ۔ جوبھی پالیسی بنائی گئی ۔ وہ اصل میں جا گیر داروں ،سرمایہ داروں ،وڈیروں ،اور سیاست دانوں کے مفادکے تخفظ کے لیے بنائی گئی ۔ لہذا یہ ملک دن بدن روبہ زوال ہے ۔
: ترقیاتی وسائل کے استعمال میں عدم تعاون(B)
ملک میں تر قیاتی کاموں کے لیے الگ محکمے ،وزارتیں اور ڈویژن کام کر رہے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اوررقیبیوں جیسا سلوک کرتے ہیں
: ترقیاتی وسائل کے استعمال میں عدم تعاون(B)
ملک میں تر قیاتی کاموں کے لیے الگ محکمے ،وزارتیں اور ڈویژن کام کر رہے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اوررقیبیوں جیسا سلوک کرتے ہیں
(Comprehensive Planing)۔ اور ہمہ گیر تر قیاتی عمل کے
کے لیے عدم تعاون کرتے ہیں لہذا وہ قو می وسائل کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں
:ٹیکس وصول میں غیر منصفانہ طر یقہ کار(C)
کسی بھی ملک کی معاشی زندگی ٹیکس ہی کی مر ہو ن منت ہے ۔ ٹیکس کا نظام ،اس کی شرح ٹیکس ،نو عیت اور طر یقہ کار ،ہی کسی معیشت کی کمزوری یا مظبوطی کو ظاہرکر تاہے ۔ پاکستان کے نظام ٹیکس میں بالواسطہ ٹیکس کا حصہ 75%ہے ۔ جبکہ بلا واسطہ ٹیکس کی شرح 25%ہے ۔ اور پھر بلاواسطہ ٹیکس میں 60% ملا زمین کی تنخواہ کا حصہ ہے ۔ جبکہ صرف اس25% کا 40%حصہ جو کہ سر مایہ داروں ، تاجروں ،سیاست دانوں سے
حاصل کیا جاتا ہے ۔(Direct)
یہ ہے ۔ Draw Backدوسرا اس نظام کا بڑا
کہ جوں جوں کسی کی آمدنی بڑھتی ہے ۔ اس کی شرح بھی بڑھتی جاتی ہے ۔ ا اور وہ بھی٪65
فی صد تک چلی جاتی ہے ۔ جس سے کاروبار کرنے والے کے لیے یہ ممکن نہیں ر ہتاکہ وہ ایمانداری سے ساری کمائی ٹیکس کی حد میں دے ۔ لہذاوہ ٹیکس چوری کے حربے استعمال کرتا ہے اور اہلکاروں کے ساتھ مل کر بڑا حصہ ہضم کر جاتا ہے ۔
فی صد تک چلی جاتی ہے ۔ جس سے کاروبار کرنے والے کے لیے یہ ممکن نہیں ر ہتاکہ وہ ایمانداری سے ساری کمائی ٹیکس کی حد میں دے ۔ لہذاوہ ٹیکس چوری کے حربے استعمال کرتا ہے اور اہلکاروں کے ساتھ مل کر بڑا حصہ ہضم کر جاتا ہے ۔
دوسرایہ کہ ملک میں اکثر بڑے کاروباری اور جاگیردار ہی سیاست پر قابض ہیں ۔ لہذا وہ ویسے بھی سر کاری اہلکاروں کوخاطر میں نہیں لاتے اور ٹیکس لوٹ لوٹ کر اربوں اور کھربوں روپوں کے مالک بن گئے ہیں ۔تیسری وجہ ہے کہ پاکستان کے ٹیکس کا نظام اتنا پیچیدہ ہے کہ ایک چیز پر کئی
پرہیں ۔ جس سے(Production Unit)دفعہ ٹیکس لاگو ہو جاتا ہے ۔ اور سب سے زیادہ ٹیکس بلاواسطہ ہونے کے ساتھ ساتھ
Place the ad code on articles you want ads to appear, in between the HTML of your content
It can take 20-30 minutes for the ad to appear on the page. At first, the ad might show as a normal display ad, but it will soon be replaced by a native ad.
See the code implementation guide for more details.
طاری ہوتا ہے ۔(Slump)پر جمود
تنزلی کا شکار ہو تی ہے ۔(Economy) معاشی سر گر میوں محدود ہوتی ہیں ۔ بے روزگاری پھیلتی ہے ۔ اس طرح معیشت
لہذا معیشت میں بہتری لانے کے لیے ضروری ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس کم کئے جائیں ۔ بجلی ،گیس، اور پٹرول ،کے قیمتوں میں کمی کی جائے ۔ اور ان میں استحکام لایا جائے ۔ اور اوگرا نے جو ملک آئل اور گیس کی قیمتوں میں ہر ماہ بعد کمی بیشی کا ڈرامہ رچایا ہواہے ۔ اُس کو فی الفور بند ہونا چاہیے Cost Per Unit اور کم از کم 1سال کے لیے توانائی کی قیمتوں میں استحکام ہونا چاہیے ۔ تاکہ کاروباروی لوگ اپنے
کو صحیح طور پر متعین کر سکیں اور بیرونی منڈیوں میں اپنی اشیا متعارف کروا سکیں ۔
:غیر ضروری بیرونی قر ضہ کا حصول(D)
پاکستان کی جو بھی حکومتیں 73سالوں میں آتی ہیں اُن کو جب بھی کسی ملک یا ادارے نے قرضہ کی پیشکش کی تو اُنہوں نے اس کو بڑے شوق سے قبول کیا ۔ پھر اُس کی قسطیں اور سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر بھاری بو جھ ڈال دیا گیا ۔ اور وہ قرضہ وہی ممالک تنخواہوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے نام پر واپس لے گئے ۔ اور پاکستان کے حصے میں کچھ بھی نہ آیا ۔
دوسرا وہ ایسے منصوبوں کے لیے وسائل دیتے ہیں ۔ جو ہمارے لیے اہم تو ہیں ۔ لیکن فوری ضرورت نہیں ہوتی جس سے قر ضوں کا بوجھ بڑھتا گیا اور آج 105بلین ڈالرتک پہنچ گیا ہے ۔
:قرضوں کا غلط استعمال(E)
بیرون اور اندرون ملک سے حاصل کردہ قرضہ جات جس مقصد کے لیے حاصل کئے جاتے ہیں وہ ان منصوببہ جات پر خرچ نہیں کئے جاتے ۔ اور اگر اُن کا کچھ حصہ خرچ بھی کیا جائے تو جب قرضہ ختم ہو جاتا ہے تو اس طرح پہلے سے استعمال شدہ وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں ۔ جیسے
:غیر ضروری بیرونی قر ضہ کا حصول(D)
پاکستان کی جو بھی حکومتیں 73سالوں میں آتی ہیں اُن کو جب بھی کسی ملک یا ادارے نے قرضہ کی پیشکش کی تو اُنہوں نے اس کو بڑے شوق سے قبول کیا ۔ پھر اُس کی قسطیں اور سود کی ادائیگی کے لیے عوام پر بھاری بو جھ ڈال دیا گیا ۔ اور وہ قرضہ وہی ممالک تنخواہوں اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے نام پر واپس لے گئے ۔ اور پاکستان کے حصے میں کچھ بھی نہ آیا ۔
دوسرا وہ ایسے منصوبوں کے لیے وسائل دیتے ہیں ۔ جو ہمارے لیے اہم تو ہیں ۔ لیکن فوری ضرورت نہیں ہوتی جس سے قر ضوں کا بوجھ بڑھتا گیا اور آج 105بلین ڈالرتک پہنچ گیا ہے ۔
:قرضوں کا غلط استعمال(E)
بیرون اور اندرون ملک سے حاصل کردہ قرضہ جات جس مقصد کے لیے حاصل کئے جاتے ہیں وہ ان منصوببہ جات پر خرچ نہیں کئے جاتے ۔ اور اگر اُن کا کچھ حصہ خرچ بھی کیا جائے تو جب قرضہ ختم ہو جاتا ہے تو اس طرح پہلے سے استعمال شدہ وسائل بھی ضائع ہو جاتے ہیں ۔ جیسے
Partitionدیہاتوں میں گلیوں اور نالیوں کی تعمیر ،واٹر سپلائی کے منصوبہ جات ،پختہ راستوں کی تعمیر،سٹریٹ لاءٹس،فٹ پاتھ،سڑکو ں کے درمیان
چوراہوں میں یاد گاری چوک،افتتاع کی یادگاری تختییاں ،وغیرہ پر بہت سارے وسائل ضائع کیے جاتے ہیں اور
جو نہی حکومت بد لتی ہے تو وہ سارے منصوبے جو سا بقہ حکو مت نے مکمل کیے ہو تے ہیں نئی آنے والی حکو مت اُن کو ختم کر کے اپنے کار ندوں کونو ازنے کے لیے نئے سر ے سے شر وع کر دیتی ہے ۔
:بیرونی قر ضہ جات پر انحصار(E)
پالیسی ساز ادارے اور افراد جو ملک کی مواشی پالیسیاں بنا رہے ہیں ۔ وہ ایک نفسیاتی کیفیت میں متبلا ہیں وہ بیرونی قرضوں کے بغیریہ سمجھتے ہیں کہ ملک چل نہیں سکتا ۔ اور اس قدر ذہنی مایوسی والے لوگ قوم کو زوال سے کیسے نکال سکتے ہیں ۔ قوم کو معاشی خوشحالی دینے کے لیے ایسی قیادت Visionضروری ہے جس کی اپنی
پالیسی ساز ادارے اور افراد جو ملک کی مواشی پالیسیاں بنا رہے ہیں ۔ وہ ایک نفسیاتی کیفیت میں متبلا ہیں وہ بیرونی قرضوں کے بغیریہ سمجھتے ہیں کہ ملک چل نہیں سکتا ۔ اور اس قدر ذہنی مایوسی والے لوگ قوم کو زوال سے کیسے نکال سکتے ہیں ۔ قوم کو معاشی خوشحالی دینے کے لیے ایسی قیادت Visionضروری ہے جس کی اپنی
ہو اور وہ انقلابی سوچ کے مالک ہوں ۔ اورایسی غیر ت مندانہ ،دیانت دارانہ سو چ اور نظر یات کے لوگ ہی قو موں کو کسی کنارے تک پہنچا سکتے ہیں ۔
: کی شرائط ملکی مفاد کے منافیIMF (F)
جب غر یب ممالک کو قر ضہ د یتا ہے ۔(IMF)عالمی مالیاتی فنڈ
: کی شرائط ملکی مفاد کے منافیIMF (F)
جب غر یب ممالک کو قر ضہ د یتا ہے ۔(IMF)عالمی مالیاتی فنڈ
تو شرائط بھی ساتھ ہی لے آتا ہے ۔ اُس کی شرائط ظاہرا تو ملکی مفاد میں نظر آتی ہیں جیسے بجٹ خسارہ کم کیا جائے ۔ زراعت پر سبسڈی ختم کی جائے ۔ بجلی اور گیس کے نرخ بڑ ھائے جائیں ، و غیرہ ان تمام اقدامات
سے ملک کی معاشی سر گر میوں پر منفی اثر ہوتا ہے ۔ جب زراعت پر سبسڈی ختم کی جاتی ہے تو زرعی مداخل مہنگے ہو جاتے ہیں ۔ جس سے غر یب کسان کی قوت متاثر ہوتی ہے ۔ اور ان کا استعمال (کھاد،ادویات اور زراعی مشنری کا استعمال کم ہو جاتا ہے ۔ جس سے ملکی زرعی پیداوار میں کمی آجاتی ہے ۔ جب بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ تو فر موں کے پیداواری اخراجات بڑھ جاتے ہیں جس سے اُن کے منافع جات یا تو کم ہو جاتے ہیں ۔ یا ختم ہو جاتے ہیں ۔ اور وہ بیرونی منڈیوں میں مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ر ہتے اور برآمدات میں اضافہ نہیں ہو پاتا ۔IMFبجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے
یہ تجویزکرتا ہے کہ ٹیکس بڑھائے جائیں ۔ جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آتا ہے ۔ مزدور تنحواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ پیداواری اخراجات بڑھ جاتے ہیں ۔ ملک میں اضطراب کی صورت حال پیداہو جاتی ہے ۔ ملکی ترقی رک جاتی ہے ۔ لہذا اگر ملکی تر قی میں اضافہ
.سے نجات پانا ہو گئی IMFکرنا ہے تو پھر
Author: Nasir Mehmood Ch مصنف: ناصرمحمود چوہدری
Email: Nasirmehmoodch97@gmail.com
0 Comments