Agricultural Structure of Pakistan (Part 1)
جب ہم پاکستان کے معاشی ڈھانچے کی ساخت اور کارکردگی پر نظر ڈالیں تو بے شمار چیزیں سامنے آتی ہے ۔ جو کے معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اس میں ایک طرح تو ایسی معاشی پالیسی بنائی جاتی ہے جن کا ہمارے معروضی حالات سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف ان پر عملدرآمد مت میں بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں جن سے ملکی وسائل کو تباہ کیا جاتا ہے اور یہ ناقص پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک جس میں ہر قسم کے قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل بھی دستیاب ہے معاشی ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ اس ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں بلکہ پالسی ساز اداروں کی سوچ میں تبدیلی لانا ضروری ہے اور اپنے وسائل کو بہتر استعمال میں لانا ہوگا ان پالیسیوں پر عمل درآمد اس طرح ہی کرنا ہوگا جس طرح ہم نے اپنے ذاتی ملازمین سے کام لینے میں کوتاہی برداشت نہیں کرتے ایسے ہی ملکی وسا ئل کے استعمال میں جو غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں ان سے نمٹا جائے ۔
میں کچھ اصلاحات لانا ہوں گی ان اصلاحات کی تفصیلSocial Political and Economic Structureلیکن یہ سارا کام کرنے کے لیے ہمیں
بعد میں بیان کریں گے لیکن آج میں یہ بیان کر نا چاہتا ہوں کہ اکثر معاشیات دان دانشور،اور تجزیہ نگار اس بات کو دہراتے ہیں کہ پاکستان میں کاGDP Collectionٹیکس
کا 12%ہے ۔ بھارت کا 11فیصد, ملائشیا کا 13.6فیصد ,چائنا کا9.20فیصد ,جنوبی کوریا کا26.9 فیصد ہے لہذا اسے بڑھانا چاہیے اور 16فیصد
.میں اضافہ ضروری ہے Collection تک لانا چاہیے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ٹیکس
لیکن یہاں مسئلہ وسائل کی کمی کا نہیں یہاں تو و سائل کے غیرمیاری استعمال کا ہے پہلے ہ میں یہ دستیاب وسائل کو بہتر استعمال میں لانا ہوگا ۔ عرصہ طویل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا ۔ معشیت کے وہ شعبہ جات جن میں کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں ہوتی
(sub-sector)کرسکتے ہیں اورپھر جوSpecializeان میں تو ہم
ہمارے حالات کے مطابق ہیں اور دستیاب انسانی وسائل سے ان میں ترقی کی جاسکتی ہے اس سلسلے میں سب سے پہلے میں زراعت کا شعبہ لوں گا ۔ جس میں نہ تو غیر ملکی امداد کی ضرورت ہے اور نہ زیادہ تبد یلی بلکہ ہم بہتر منصوبہ بندی سے اس میں نئے (sub-sector) وسیع کرسکتے ہیں ن
پاکستان میں کئی لاکھ کلومیٹر لمبی سڑ کیں موجود ہےں اور ہر سڑک کے کنارے دونوں طرف ہزاروں ایکڑ اراضی پڑی ہوئی ہے اس کو ہم اس طرح استعمال کر سکتے ہیں کہ
بے زمین یا بے گھر افراد کو ڈیڑھ کلومیٹر سڑک کی زمین لیز پر دے دی جائے اور وہاں ہم فروٹ کے با غا ت لگا دئیے جائیں()
ایسے بے روزگار غیر ہنرمند اور نیم تعلیم یافتہ افراد کو بھی سڑک کے کنارے پلاٹ الاٹ کردیئے جائیں()
پانی کا بندوبست کہیں قدرتی طور پر موجود ہے اور کہیں مصنوعی یعنی ٹربا ئےن واٹر ٹینک سے مہیا کیا جا سکتا ہے()
اس طرح ملک میں پھلوں کی بہتات ہوگی ۔ پھل سستے ہوں گے پھلوں کوبرآمد کیا جا سکتا ہے اور پروسیسنگ پلانٹ لگا کر پھلوں سے مختلف
پاکستان میں کئی لاکھ کلومیٹر لمبی سڑ کیں موجود ہےں اور ہر سڑک کے کنارے دونوں طرف ہزاروں ایکڑ اراضی پڑی ہوئی ہے اس کو ہم اس طرح استعمال کر سکتے ہیں کہ
بے زمین یا بے گھر افراد کو ڈیڑھ کلومیٹر سڑک کی زمین لیز پر دے دی جائے اور وہاں ہم فروٹ کے با غا ت لگا دئیے جائیں()
ایسے بے روزگار غیر ہنرمند اور نیم تعلیم یافتہ افراد کو بھی سڑک کے کنارے پلاٹ الاٹ کردیئے جائیں()
پانی کا بندوبست کہیں قدرتی طور پر موجود ہے اور کہیں مصنوعی یعنی ٹربا ئےن واٹر ٹینک سے مہیا کیا جا سکتا ہے()
اس طرح ملک میں پھلوں کی بہتات ہوگی ۔ پھل سستے ہوں گے پھلوں کوبرآمد کیا جا سکتا ہے اور پروسیسنگ پلانٹ لگا کر پھلوں سے مختلف
مصنوعات تیار کرکے برآمد کی جاسکتی ہیں ۔ ملک میں پھلوں کی بہتات ہوگئی ۔ تو عوام کو سستا پھل میسر آئے گا ۔ غذائی ضرورت پوری ہوگی بےروزگاری کم ہوگئی ۔ ماحول سے آلودگی کم ہوگئی ۔ ماحول میں آکسیجن کی مقدار میں اضافہ ہوگا اور یہ سارے فوائد کے لئے کچھ زیادہ سرمایہ کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہوں گے ۔
ایک علیحدہ جنگلات کا ترقیاتی بورڈ تشکیل دینا ہوگا ۔(A)
تحصیل ہیڈ کوارٹر پر اس دفتر کا قیام کرنا ہوگا ۔(B)
تحصیل ہیڈ کوارٹر جنگلات کے زیر انتظام ایک نرسری کا قیام جو معمولی قیمت پر پودےن لوگوں کو مہیا کرے ۔(C)
تشہیری مہم سکولوں ,کالجوں اور سرکاری اداروں کے ذریعے بغیر اخراجات کے منظم کی جائے ۔(D)
تحصیل کی سطح پر پروسیسنگ پلانٹ )پبلک پرائیویٹ( پارٹنر شپ کی بنیاد پر ممکن بنائے جائیں ۔(E)
پودوں کے تحفظ ایکٹ کو موثربنایا جائے اور اس کی خلاف ورزی پر سزا سنائی جائے (F)
پورے ملک میں جس طرح پولیو کے قطرے مقرر تا ریحوں پر پلائے جاتے ہیں اس طرح پوری قوم کو سال میں دو مرتبہ شجرکاری کے دنوں(G)
ایک علیحدہ جنگلات کا ترقیاتی بورڈ تشکیل دینا ہوگا ۔(A)
تحصیل ہیڈ کوارٹر پر اس دفتر کا قیام کرنا ہوگا ۔(B)
تحصیل ہیڈ کوارٹر جنگلات کے زیر انتظام ایک نرسری کا قیام جو معمولی قیمت پر پودےن لوگوں کو مہیا کرے ۔(C)
تشہیری مہم سکولوں ,کالجوں اور سرکاری اداروں کے ذریعے بغیر اخراجات کے منظم کی جائے ۔(D)
تحصیل کی سطح پر پروسیسنگ پلانٹ )پبلک پرائیویٹ( پارٹنر شپ کی بنیاد پر ممکن بنائے جائیں ۔(E)
پودوں کے تحفظ ایکٹ کو موثربنایا جائے اور اس کی خلاف ورزی پر سزا سنائی جائے (F)
پورے ملک میں جس طرح پولیو کے قطرے مقرر تا ریحوں پر پلائے جاتے ہیں اس طرح پوری قوم کو سال میں دو مرتبہ شجرکاری کے دنوں(G)
میں متحرک کیا جائے اور نوجوان نسل کی توجہ غیر ضروری سرگرمیوں سے ہٹا کر اس طرح کے تعمیراتی کاموں میں مہیا لگایا جائے
پاکستان میں 44 فیصد آبادی کا زراعت سے تعلق ہے جبکہ قومی پیداوارمیں اس کا
فیصدحصہ ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے زرعی شعبہ اپنی گنجائش کے مطابق پیداوار نہیں دے رہا ۔ کیونکہ زرعی شعبے کے مزدور کم پیداواری کاشکارہےں زیر کاشت رقبہ اپنی اپنی پوری گنجائش کو استعمال نہیں کر رہا ۔
اس طرح پاکستان کے چند اہم مسائل جو زراعت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
اس طرح پاکستان کے چند اہم مسائل جو زراعت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
پیداوار سے کم ہے ۔Capacityمزدوروں کی پیداوار اور ان کی
سے کم ہے ۔Capacity Productزمین کی پیداوار اس کی
زیادہ تر زمیندار چھوٹے ہیں جو کہ ہر وقت سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے بہتر بیج کھاد اور ادویات کا استعمال نہیں کر پاتے جس سے فی ایکڑ پیداوار()
کم رہتی ہے ۔
کا بروقت استعمال نہ ہوتا ۔:(Agriculture inputs)زرعی مداخل(D)
جب فصلوں کو ضرورت ہوتی ہے ۔ تب کھاد میسر نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے ۔ تو انتہائی زیادہ قیمت پر جو کسان کے وسائل سے باہر ہوتی ہے ۔
.غیر معیاری ادویات اس ملک کی زراعت کو تباہ کر رہی ہے(E)
.غیر معیاری ادویات اس ملک کی زراعت کو تباہ کر رہی ہے(E)
ا ن جعل ساز کمپنیوں پر پابندی کاکو ئی نظام نہیں ۔ بلکہ ضلعی زراعت آفیسر کا عملہ جس کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے ان کمپنیوں سے نذرانے وصول کرتے ہیں اور زراعت پر ڈاکے ڈالتے ہیں ۔
حکومتی پالیسیوں میں جو زراعت کے لیے بنائی جاتی ہے ان میں درجہ ذیل نقائص ہیں ۔(F)
(ا)سالانہ بجٹ میں زراعت کی ترقی کے لئے کوئی قابل ذکر رقم نہیں رکھی جاتی ۔ سال 2009 میں تقریبا 11 ارب روپے زراعت کے لیے رکھے گئے جو کہ بہت کم ہے ۔
(ا)سالانہ بجٹ میں زراعت کی ترقی کے لئے کوئی قابل ذکر رقم نہیں رکھی جاتی ۔ سال 2009 میں تقریبا 11 ارب روپے زراعت کے لیے رکھے گئے جو کہ بہت کم ہے ۔
(2)اسٹاک سسٹم کا نہ ہونا (Buffer)ب) بفر
(3) کسان کا استحصال آذھتیوں کے ہاتھو ں ۔
4)غیر آباد زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے حکمت عملی کی کمی ۔
(5) غیر معیاری طریقے سے وسائل کی تقسیم ۔
(6)زرعی قرضوں میں کرپشن اوررکاوٹیں ۔
(7)حکومتین پالیسیوں میں عدم تسلسل اور ذاتی مفاد ۔
اوپر بیان کردہ مسائل کے علاوہ بھی کئی ایک زرعی نوعیت کے مسائل ہیں ۔ لیکن چند ایسے مسائل ہیں جن کی موجودگی میں سرسبز پاکستان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا ۔ ان رکاوٹوں کو ہم کیسے دور کر سکتے ہیں اب ہم ان کا ذکر کرتے ہیں ۔
(3) کسان کا استحصال آذھتیوں کے ہاتھو ں ۔
4)غیر آباد زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے حکمت عملی کی کمی ۔
(5) غیر معیاری طریقے سے وسائل کی تقسیم ۔
(6)زرعی قرضوں میں کرپشن اوررکاوٹیں ۔
(7)حکومتین پالیسیوں میں عدم تسلسل اور ذاتی مفاد ۔
اوپر بیان کردہ مسائل کے علاوہ بھی کئی ایک زرعی نوعیت کے مسائل ہیں ۔ لیکن چند ایسے مسائل ہیں جن کی موجودگی میں سرسبز پاکستان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا ۔ ان رکاوٹوں کو ہم کیسے دور کر سکتے ہیں اب ہم ان کا ذکر کرتے ہیں ۔
پاکستان کی زراعت کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے ہیں ۔
(1) زراعت میں موجود لیبر فورس سےپورا کام لینے کے لیے ضروری ہے
(1) زراعت میں موجود لیبر فورس سےپورا کام لینے کے لیے ضروری ہے
کہ ایک تو انکو جدید ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے ۔ جس کے لیےمحکمہ زراعت ہر گاؤں یا بڑے پیداواری یونٹ میں جاکر بذریعہ پروجیکٹر مزدوروں کی تربیت کا بندوبست کیا جائے
(2)زرعی لیبر فورس کے لیے بھی کم سے کم اجرت کا تعین کیا جائے ۔
(3) زرعی مزدوروں کے لیے بھی بڑھاپے میں پنشن کا نظام متعارف کرایا جائے ۔
0 Comments