Revolutionary Measures to Improve the Agriculture Sector in Pakistan
پاکستان کی زرعی ترقی کے لئے مجوزہ انقلابی اقدامات
اگر پاکستان کے حکومتیں زراعت کی ترقی کے لئے مخلص ہو ں توقلیل وسائل سے ایسے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں جو صدیوں ملک کی معاشی ترقی میں اضافہ کرتے رہے .
چونکہ پاکستان آبی وسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جا رہی ہیں لہٰذا اس کو بہتر استعمال میں لانے اور اس کے ضیاع کو روکنا ضروری ہے ۔ اس کے لئے درج ذیل اقدامات کیے جاسکتے ہیں ۔
(2) اگر ایک ارب روپے کی کرینیں خرید لی جائےں ۔ جو دریاؤں کے کنارے کے ساتھ ساتھ گہری نہرنماخندق بنائےں اور ساتھ بند بنایا جائے ۔ جس سے سردیوں میں جب پانی کم ہوتا ہے ۔ تو پانی اس گہرائی والی جگہ میں سے گذرے گا اور ساتھ کنارے پر درخت لگادیئے جائےں تو اس سے ایک طرف تو% 20 تا30% جو پانی ضائع ہوتا ہے ۔ اس کو بچایا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف پھلوں اور درختوں میں اضافہ ہوگا اور تیسرا روزگار میں اضافہ ہوگا ۔ چوتھا گہری جگہ میں فش فارم بنائے جاسکتا ہیں ۔
ا س طرح محدود وسائل کے استعمال 4 تا5 سالوں میں بڑی حد تک جہا ں جہاں پانی ضائع ہوتا ہے ۔ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
(2) محدود وسائل سے اگر صرف 2 تا3ارب روپے سے زمین کو ہموار کرنے والی مشینری خرید لی جائے اور ملک کے وہ علاقے جہاں نسبتا آسانی سے زمین زیر کاشت لائی جاسکتی ہے ۔ اس کو لایا جائے ۔ یہ ایسی سرمایہ کاری ہے ۔ جو کئی گنا زیادہOutputدیتی ہے ۔
(2) اگر ایک ارب روپے کی کرینیں خرید لی جائےں ۔ جو دریاؤں کے کنارے کے ساتھ ساتھ گہری نہرنماخندق بنائےں اور ساتھ بند بنایا جائے ۔ جس سے سردیوں میں جب پانی کم ہوتا ہے ۔ تو پانی اس گہرائی والی جگہ میں سے گذرے گا اور ساتھ کنارے پر درخت لگادیئے جائےں تو اس سے ایک طرف تو% 20 تا30% جو پانی ضائع ہوتا ہے ۔ اس کو بچایا جاسکتا ہے ۔ دوسری طرف پھلوں اور درختوں میں اضافہ ہوگا اور تیسرا روزگار میں اضافہ ہوگا ۔ چوتھا گہری جگہ میں فش فارم بنائے جاسکتا ہیں ۔
ا س طرح محدود وسائل کے استعمال 4 تا5 سالوں میں بڑی حد تک جہا ں جہاں پانی ضائع ہوتا ہے ۔ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
(2) محدود وسائل سے اگر صرف 2 تا3ارب روپے سے زمین کو ہموار کرنے والی مشینری خرید لی جائے اور ملک کے وہ علاقے جہاں نسبتا آسانی سے زمین زیر کاشت لائی جاسکتی ہے ۔ اس کو لایا جائے ۔ یہ ایسی سرمایہ کاری ہے ۔ جو کئی گنا زیادہOutputدیتی ہے ۔
اس کا اندازہ لگایا جائے ۔ تو ایک کرین اور بلڈوزر تقریبا 2 کروڑ روپے میں آتے ہیں ۔ ان پر اگر365 دن کام کیا جائے تو یہ سینکڑوں ایکڑ اراضی ایک سال میں قابل کاشت بنا سکتی ہیں ۔
ایکڑ اراضی ایک سال میں قابل کاشت بنا سکتی ہیں ۔
اگر ڈھلانیں زیادہ نہ ہوں تو یہ ہزاروں ایکڑ بھی قابل کاشت بنا سکتی ہیں ۔ اور یہ دریاءوں کے پاس زیادہ آسانی سے قابل کاشت بناسکتی ہیں اور 12 ارب کی مشینری اور ایک ار ب روپے اس پر کہ دوسرے اخراجات سال میں ہوں تو یہ کم از کم ایک سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی قابل کاشت بتا سکتے ہیں ۔ ہم فرض کریں کہ 1 لاکھ ایک ایکڑ اراضی3ارب میں قابل کاشت بنائی جائے اور,000 30 روپے سالانہ فصل سے صرف آمدنی حاصل ہو حالا نکہ اس سے زیادہ,000 50 سے,000 60 ہزار تک بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ تو اس سے صرف 1سال میں 3ارب واپس آ جاتے ہیں ۔ باقی لامحدود عرصہ تک اس سے پیداوار حاصل ہوتی رہے گی ۔ اور قومی آمدنی میں اضافہ ہو تا رہے گا ۔
(3)پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں برساتی نالے عام گزرتے ہیں اور بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں یہ ڈیم بن کر پانی کو جمع کیا جاسکتا ہے جو سارا سال زراعت کی ترقی کے لیے اور فصلوں کے لیے استعمال ہوگا ۔ تواس ڈیم پر ایک چھوٹا سا بجلی کا پیداواری یونٹ پر لگا دیا جائے ۔ یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ(Partnership)کی بنیاد پر کئے جاسکتے ہیں ۔ ان منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ لاگت5 تا10 کروڑ ہو گئی جو کہ بڑی آسانی سے میسر ہوسکے گی.
ایکڑ اراضی ایک سال میں قابل کاشت بنا سکتی ہیں ۔
اگر ڈھلانیں زیادہ نہ ہوں تو یہ ہزاروں ایکڑ بھی قابل کاشت بنا سکتی ہیں ۔ اور یہ دریاءوں کے پاس زیادہ آسانی سے قابل کاشت بناسکتی ہیں اور 12 ارب کی مشینری اور ایک ار ب روپے اس پر کہ دوسرے اخراجات سال میں ہوں تو یہ کم از کم ایک سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ اراضی قابل کاشت بتا سکتے ہیں ۔ ہم فرض کریں کہ 1 لاکھ ایک ایکڑ اراضی3ارب میں قابل کاشت بنائی جائے اور,000 30 روپے سالانہ فصل سے صرف آمدنی حاصل ہو حالا نکہ اس سے زیادہ,000 50 سے,000 60 ہزار تک بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ تو اس سے صرف 1سال میں 3ارب واپس آ جاتے ہیں ۔ باقی لامحدود عرصہ تک اس سے پیداوار حاصل ہوتی رہے گی ۔ اور قومی آمدنی میں اضافہ ہو تا رہے گا ۔
(3)پاکستان کے زیادہ تر علاقوں میں برساتی نالے عام گزرتے ہیں اور بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں یہ ڈیم بن کر پانی کو جمع کیا جاسکتا ہے جو سارا سال زراعت کی ترقی کے لیے اور فصلوں کے لیے استعمال ہوگا ۔ تواس ڈیم پر ایک چھوٹا سا بجلی کا پیداواری یونٹ پر لگا دیا جائے ۔ یہ کام پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ(Partnership)کی بنیاد پر کئے جاسکتے ہیں ۔ ان منصوبوں پر زیادہ سے زیادہ لاگت5 تا10 کروڑ ہو گئی جو کہ بڑی آسانی سے میسر ہوسکے گی.
(4)ایسے علاقے جن میں پانی نہروں و غیرہ سے ممکن نہیں ،وہاں پر گورنمنٹ ٹیوب ویل لگا کر دے ۔ ان کو پرائیویٹ سیکٹر کے کنٹرول میں دے ۔ اور اپنا سرمایہ قسطوں میں بغیر سود کے واپسی لے لے ۔
(5) وہ علاقے جہاں پہلے سے کاشت ہو رہی ہے
وہاں پر زیادہ درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے ۔
(5) وہ علاقے جہاں پہلے سے کاشت ہو رہی ہے
وہاں پر زیادہ درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے ۔
پانی کے ضیاع کو روکنے کے لئے کھالوں کا موثر اور پختہ نظام وضع کیا جائے ۔ لوگوں کو میرٹ پر پختہ کھال تیار کرکے دیئے جائیں ۔ اور ان میں سیاسی اثر و رسوح کو ختم کیا جائے ۔ ٹھیکیداروں کا غیرضروری منافع اور افسروں کی کمیشن کا خاتمہ کیا جائے ۔ میری تحقیق کے مطابق پاکستان میں جوترقیا تی کا سول ٹھیکداروں کے ذریعے کرائے جاتے ہیں ۔ ان میں اس رقم کا صرف 45 سے 60فیصد اصل ترقیات استعمال ہوتا ہے جبکہ باقی
رقم ناجائز منافع خوری، ناقص میٹریل ،افسروں کی کمیشنCommissionاورOver Estimation
کے ذریعے ضائع ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ73سال گزرنے کے باوجود بھی آج تک کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہو سکی ۔
جبکہ کئی دوسرے ملک جو پاکستان کے ساتھ یا بعد میں آزاد ہوئے انہوں نے زراعت میں اتنی ترقی کی ہے کہ نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے رہے ہیں ۔ بلکہ اربوں ڈالر کی زرعی اجناس برآمد بھی کر رہے ہیں ۔ ان ممالک میں چائنہ سرفہرست ہے جوکہ 12لاکھ ڈالر کی برآمدات ہے کر رہا ہے ۔ اس کے بعد بھارت جوکہ 155 ارب ڈالر کی زرعی برآ مد کر رہا ہے بنگلہ دیش ،فلپا ئن، تھائی لینڈ اور ترکی وغیرہ اس کے علاوہ ہےں ۔ جہاں تک کہ باقی دنیا کے ممالک میں بحثیت قوم کے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہےں ۔ کہ اگر کسی ایک شعبے میں وہ کمزور ہیں۔ تو دوسرے شو بہ ہائے معیشت میں انہوں نے اُس کی کمی پوری کر دی ہے ۔
جبکہ کئی دوسرے ملک جو پاکستان کے ساتھ یا بعد میں آزاد ہوئے انہوں نے زراعت میں اتنی ترقی کی ہے کہ نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کے رہے ہیں ۔ بلکہ اربوں ڈالر کی زرعی اجناس برآمد بھی کر رہے ہیں ۔ ان ممالک میں چائنہ سرفہرست ہے جوکہ 12لاکھ ڈالر کی برآمدات ہے کر رہا ہے ۔ اس کے بعد بھارت جوکہ 155 ارب ڈالر کی زرعی برآ مد کر رہا ہے بنگلہ دیش ،فلپا ئن، تھائی لینڈ اور ترکی وغیرہ اس کے علاوہ ہےں ۔ جہاں تک کہ باقی دنیا کے ممالک میں بحثیت قوم کے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہےں ۔ کہ اگر کسی ایک شعبے میں وہ کمزور ہیں۔ تو دوسرے شو بہ ہائے معیشت میں انہوں نے اُس کی کمی پوری کر دی ہے ۔
اب میں یہاں پرCountry Greenestاور Rankingبیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح غریب غریب ممالک ان کا ا نام سن کر بربط کا احساس ہونا شروع ہو جاتا ہے انہوں نے جس طرح اپنے ممالک میں راحت لگائے ہیں اور رقبہ زیر کاشت لایا ہے ۔ سبزے کے حوالے سے ورلڈRankingدرج ذیل ہے ۔
پا کستان دینا کے چند بڑے مما لک میں شامل ہے ۔ جو زراعی پیداوار اور خوراک پیدا کرتے ہیں ۔ حالانکہ پاکستان کے کل رقبہ کا25%رقبہ زیر کاشت ہے ۔ اور دنیا کے بڑے نہری ں نظام میں سے ایک نہری نظام پاکستان میں موجود ہے ۔ پاکستان میں موجودہے ۔ پاکستان کے زرعی شعبہ کا کل GDPمیں حصہ بتدریج کم ہو رہا ہے ۔ یہ1999-2000 میں %25.9تھا اورجو اب 2010 میں کم ہو کر% 19.6ہو گیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے ۔ کہ ہماراے دوسرے شعبہ جات کی نسبت زراعت میں ترقی اُس شرح سے نہیں ہو رہی ہے ۔
Sectoral Contribution to GDP Growth
GDP Growth by Sector As A Percentage of GDP
2001-02 2002-03 2004-05 Agriculture Sector
Author: Nasir Mehmood Ch مصنف: ناصرمحمود چوہدری
Email: Nasirmehmoodch97@gmail.com
0 Comments