Domestic Debt As A Development Instrument

اندرونی قرضہ
ماکستان جیسے ترقی پز یر ملک جس پر اند رو نی قرضوں کا بو جھ روز بر وز بڑھتا جا رہا ہے ۔ بلکہ خطرناک حد
تک اس پر سود کی مد میں ادائیگی بھی ہر سال بجٹ میں کرنا پڑتی ہے جو کے سال 2018-19کے بجٹ میں تقر یبًا1300 ارب تھی ۔ جو کہ کل بجٹ کا تقر یبًا 22% حصہ ہے ۔
یہ بجٹ میں موجود تمام مدات میں سے سب سے بڑی مد ہے جو کہ سالانہ بجٹ کا 22% حصہ سمیٹ جاتی ہے ۔ جبکہ بیرونی قر ضوں پر سود کی مد میں تقر یبًا 300 ارب روپے ادا کرنا پڑ تا ہے جو کہ سالانہ بجٹ کا صرف 5% ہے ۔
ماہرین معاشیات اور بجٹ ساز ادارے اپنی پوری کو شش اور روایتی معاشی نظر یا ت کو بروئے کار لاتے ہوئے نا تو اس میں کمی لا سکے اور نا ہی کوئی ٹھو س حل پیش کر سکے ۔
اس بگڑتی ہوئی معا شی صورتحال اور ا ندرو نی قر ضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور بجٹ خسارہ کو ایک
گو شوارہ کی شکل میں ظاہر کیا جا رہا ہے ۔
سالاوپر بیان کر دہ گو شوارہ سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اندرونی قر ضوں پر سود کی ادائیگی تقر یبًا600% زیادہ ہے ۔ جو کہ بجٹ خسارہ کی بڑ ی وجہ ہے اور اگر اس بوجھ کو کنٹرول کر لیا جائے تو بجٹ کا خسارہ ختم ہو جاتا ہے ۔جوکہ
جو کہ 2011 میں 9 ہزار ارب روپے تھا ۔ وہ 2018 میں بڑ ھ کر 24100 ارب تک پہنچ چکا ہے ۔(Internal Debt)اندرونی قرضہ
اس میں خطر ناک حد تک اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
ان قرضوں کے بو جھ میں اضافہ کی وجہ نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ ماہرین معشیت جو کہ ملکی بجٹ کو بنانے کے ذمہ دار ہیں یا تو وہ نا اہل ہیں یا پھر وطن عز یز کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ آپ اس کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں کہ اگر قرضوں میں 2500 ارب سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا جبکہ بجٹ خسا رہ تو اس قدر نا تھا ۔ آپ تمام بجٹ (2018تا  2011 ) ملاحظہ فرمائیں آپ اس نتیجہ پر پہنچےں گے کہ باقی قرضوں کی رقم کدھرغائب ہو گئی ہے ۔ اس کو ہم ایک گو شوارہ سے بیان کرتے ہیں ۔
اوپر بیان کردہ حقائق سے یہ اندازہ ہو تا ہے ۔ کہ روایتی معشیت دان معا شی مسائل سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نا ہی اس کے لیے نظریاتی معا شیات کا سہارہ لیا جاسکتا ہے بلکہ اس کےلئے انقلابی نوعیت کے فےصلے کرنا ہوں گے 
بنانا ہو گا ۔New Economics Modelاور   بلکہ 
بلکہ ہرسال 1300ارب روپےبچت بھی ہو گی اور اس سر پلس رقم سے ہم ہر سال  ایک بھاشا ڈیم بنا سکتے ہیں ۔
اس ضمن میں ہم نے ایک ماڈل بنانے کی کوشش کی ہے جو کہ نا صرف اندرونی قر ضوں سے چھٹکارا دے گا
 ماڈل کی تفصیل نیچے دی گئی ہے
ڈائیگرام نمبر  (1)۔
حکومت ملکی ترقی اور ضروریات کو مد بظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے بنائے جن میں ڈیمزکی تعمیر، بجلی گھروں کی تعمیر، انفرا سٹر کچر، ہاءو سنگ
   کیا جائے ۔Purpose  کےلئے  Investment کو ان میں Financial Institute  وغیرہ اور ان 
  اور  یہ تمام ادارے اپنی مرضی کے پرا جیکٹ میں انو سٹمنٹ  کریں گے ۔ اور ان پر کے منا فع کےذمہ دار ہوں گے ۔ سٹیٹ بنک سنٹرل ا لیکٹرانک پیمنٹ سسٹم کے ذریعے مر حلہ وار تمام اداروں کی 10%-20% سالانہ کے حساب سے رقم منتقل کر ے گی جو کہ وہ اپنے پراجیکٹ میں منتقل کرتے جائیں گے
اس طرح بیک وقت حکو متی قرضوں میں 10%-15% سالانہ سے کمی ہوتی جا ئے گی جس سے ہر سال مر حلہ وار پہلے 200 ارب روپیے ، دوسرے سال 400 ارب روپیے، تیسرے سال 600 روپیے، چوتھے سال 800روپیے،پا نچویں 100 ارب روپیے، چھٹے سال 1200 ارب روپیے،ساتویں 1400 ارب روپیے کی بجٹ ہو گی ۔
یہ ساری رقم مر حلہ وار گر دش میں آئے گی معا شی سرگر میوں میں اضافہ ہو گا ۔ روزگار بڑ ئے گا ۔
میں اضافہ ہو گا ۔ جس سے خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہو گا ۔(Tax Collection)میں اضافہ ہو گا ٹیکس کولیکشنGDP
    (Internal Debt)بڑے پراجیکٹ جن کےلئے کم و بیش 20000ہزار ارب 7-10 سال میں میسرہوں گے ۔ اس طرح معشیت 
سے آزاد ہو گا اور ملک میں تما م ضروری پراجیکٹ بھی مکمل ہوں گے ۔ ان و سا ئل کو استعمال کرنے کےلئے ضروری ہے کہ 4 لیول کے
منصوبے بنائےں جائیں
1)  Very short term Projects                     (1) year                
2)  Short run Projects                                  (1-3) year           
 3)  Medium term Projects                         (3-5) year           
4)  Long run project                                    ( 5-10) year        
  کر سکے گا۔Choseہر ادارہ اپنے مالی وسا ئل کے لخا ظ سے پراجیکٹ کو   
 بھی بڑ ھ جاتا ہے۔price levelعام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب زر کی رسد میں اضافہ ہوتا ہے تو 
 بھی بڑ ھ جاتا ہے ۔
 لیکن آج کے دور میں یہ تصو ر غلط ثابت ہوتا ہے ۔ وہ اس طرح کے قیمتوں میں اضافہ اس وقت ہوتا ہے ۔ جب طلب، رسد سے بڑھ جائے ۔
میں اضافہ نہ ہونے کی درج ذےل وجوہات ہیں ۔Price Level
امکان نہیں ہو گا infaltion  میں ُپیداواری اضافہ ہے۔ اس لیے۔اربوں روپے پیکٹس پر لگائے جاتے ہےلہذا  sector ہر  (A)
. بڑھ جاتا ہے تو سے بھی استفادہ کےا جا سکتا ہے   price levelاگر کسی وجہ سے   ۔
ائے تو وہ بنےادی ضرورےات ہی طلب کریں گے جو کہ ملک میں وافر موجود ہیں ۔
4 ۔ امیر طبقہ پہلے ہی تمام اعلیٰ سہولےات سے استفادہ کر رہا ہے ۔ لہذا ان کی آمدن میں اضافہ اشےا ء وخدمات کی طلب میں اضافہ نہیں کرے گا ۔
ان غیر روایتی معاشی پالیسوں کو ایک پا ئیلٹ پرا جیکٹ کے ذریعے آزماےا جا سکتا ہے ۔
NTN Vs NTN Subsidiary
ملک پا کستان میں جہاں آئے روز یہ بحث چل رہی ہوتی ہے ۔ کہ آمدن میں کس طرح اضافہ کیا جائے ۔ اور ہر نے والی حکومت ٹیکس میں اضافہ کر کے اپنی آمدنی کو بڑ ھا لیتی ہے ۔ لیکن ہر اضافہ وقتی ہوتا ہے ۔ اور مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر ہر سال نئے ٹیکس لگا د یئے جاتے ہیں کئی حکومتوں نے نئے ٹیکس گزاروں کو ٹیکس نِٹ میں لانے کے لیے بہت کوشش کی لیکن بے سود رہیں
جس کی درج ذیل وجوہات ہیں ۔
ٹیکس نافذ کرنے والے لوگوں پر عوام کا عد م اعتماد ۔(A)
میں پیچید گیاں ہیں عام آدمی مشکل محسوس کرتا ہے deposit system  ٹیکس (B)
کا طریقہ موجود نہیں ہے ۔ exit ٹیکس نِٹ میں داخل ہونے پر(C)
 ٹیکس کا پر گرپو سسٹم آمدنی بڑھنے کے ساتھ ٹیکس کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا ہے ۔(D)
کا عملہ میں اکثریت عملہ میں اکثریت کرپٹ ہے ۔ collectionٹیکس  (E)
جو کہ عوام پر تو بو جھ 100%جاتا ہے ۔ جب کہ قو می خزانہ میں آدھی رقم بھی شامل نہیں ہوتی ہے ۔Indirect tax(F)
ان تمام وجوہات میں سب سے زیادہ جو قومی خزانہ کو نقصان ہوتا ہے ۔ وہ آخری نمبر بیان کردہ وجہ ہے ۔
. میں اضافہ کے لیے چند تجا و یز پیش کرتے ہیں collection اب ٹیکس
 کر کے ہم اپنے مسا ئل پرقابو پاسکتے ہیں ۔ Adoptجن کو   
میں تقسیم کر دیا جائے ۔ category  2 ٹیکس جمع کروانے والے لوگوں کو 
    ان کا نمبر ہوجاری کیا جائے NTN Subsidiaries وہ ٹیکس نادہند گان جنہوں نے کبھی ٹیکس جمع کر ویا ۔ ان کو
جو کہ ان کا شناحتی کارڈنمبر ہوگا ۔
نئے ٹیکس دہند گان اس  شناحتی کارڈکے زر یعے کسی بھی بینک میں جا کر ڈیم فنڈ کی طرز پر اپنا ٹیکس جمع کروا سکیں -
 ملک میں ملین کی تعداد میں دوکانیں اور مر چنٹ موجود ہیں ۔ جو کہ کما ئی کرتے ہیں ان کو
کے زریعے ٹیکس نِٹ میں لانا ممکن نہیں لہذا ان کے لیے فِکس ٹیکس کا نظام متعارف کروایاجائے  Physical Persuation۔ جو کہ  
لخاظ سے ٹیکس فِکس ہو جسےcatagory جو کے 
                                                                          
اور مزید ان علا قوں میں بزنس کیٹکری کے لخاظ سے ٹیکس فِکس کردیا جائے ۔ جو کہ بینکوں میں بغیر حساب کتاب کہ ٹیکس جمع کرواسکیں گے ۔ اور اس سال کا آڈٹ نہیں ہوگا نہ ہی پوچھ گچھ ہو گی ۔
  کابھی قانونی راستہ ہونا چا ہیے تا کہ لوگ ٹیکس نَٹ میں شامل ہوں ۔Exit ٹیکس نِٹ میں داخلہ ہونے کے بعد
نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ 50 لاکھ کے بعد فِکس 20%-25% ٹیکس ہونا چا ہیے بے شک آمدنی کس بھی حد کو پہنچ جائے ۔ progressiveآمدنی ٹیکس
کرپشن کرنے والے عملے کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ۔
ان اصلاحات پر عمل کر کے ہم ایک طرف اندرونی قرضوں سے نجات حاصل کر سکتے ہیں تو دوسری طرف ہم بجٹ خسارہ پر قابو پا سکتے ہیں ۔ ور 
اور آمدنی خاطر خواہ ااضافہ کر سکتے ہیں۔GDP۔ملک میں میگا پرجیکٹس کا انقلاب برپا کر کے لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں ۔
Author: Nasir Mehmood Ch                 مصنف: ناصرمحمود چوہدری 
Email: Nasirmehmoodch97@gmail.com

Post a Comment

5 Comments